[big] لفظ ’’یرشدون ‘‘ہے۔ یہیں سے لفظِ مرشد نکلا ہے‘ صاحب! ’’ارشاد ‘‘ہے روشنی دینے والا۔ یہ ہے طریقہ اس کا جو قرآن نے بتایا ہے۔ ہم ان سب چیزوں کو چھوڑ کر پہلے تو ایک مرشد کی تلاش میں نکلتے ہیں ‘پھر وہاں پہنچنے کے بعد یہ نہیں ہے کہ اپنی آرزوؤں کو‘ اپنے اعمال کو‘ اس کے قوانین سے ہم آہنگ کریں۔ نہیں صاحب! ’’بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ فغاں گوید‘‘ ’’اوکیندا اے کہ مصلیٰ و صلیٰ سارا شراب دے مٹکے اچ ڈبو دے‘ ‘٭(9)۔
کہ سالک بے خبر نبود زراہ و رسم منزلہا
تہانوں تے کچھ پتہ نئیں ہیگا‘ کہ اے جاندا روز ‘اوتھوں پھر کے اوندا ٭(10)ہے۔ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (2:186)مرشد کی تلاش ہے۔ یہ ہے تمہارے لیے مرشد۔ یہ چیز جو میں نے کہی ہے کہ قرآن نے یہ کہا ہے‘ اس نے خود یہ چیز کہی ہے کہ جو رشد اور غی ہے‘ قرآن کی رو سے واضح ہوچکے ہیں۔ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ (2:256)قرآن میں یہی لفظِ رشد ہے جو آپ دیکھتے ہیں وہاں آتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں ’’عقل و فکر کی رو سے جس راستے کی محکمیت یا جس کی حکمت کو عقل و فکر کی رو سے بھی پورا اترتا ہوا ہم دیکھ لیں‘‘ اس کو رشد کہتے ہیں۔ سنِ رشد آپ دیکھتے ہیں کہ اس کو کہتے ہیں جب انسان کی عقل و فکر پختہ ہوجاتی ہے۔ قرآن میں یہ چیز واضح ہوگئی ہوئی ہے اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعائیں قبول ہوں تو فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ (2:186)ہماری پکار کا جواب دو‘ ہمارے قوانین کی محکمیت پر یقین رکھو۔
انسانیت کی دنیا میں خدا کے سوا کوئی دوسرے کا مرشد نہیں
ان سے کہو کہ یہ ہے وہ طریق عمل : لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (2:186)۔جس سے زندگی کا صحیح راستہ نکھر کر‘ ابھر کر‘ کھل کر‘ واضح طور پر‘ تمہارے سامنے آجائے گا۔ اور یہی طریق ہے جس کو آپ مرشد پکڑنا کہتے ہیں۔ برادرانِ عزیز! خدا کے سوا کوئی دوسرا مرشد نہیں۔ راستہ وہی صحیح ہے‘ جو اس نے دکھا دیا ہے اور وہ قرآن کی دفتین کے اندر محفوظ کر کے اس نے دکھا دیا۔ دعا مانگنا نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر دوراہے پہ کھڑے ہو کر جہاں آپ کو ذرا سا بھی اشتباہ گزرے کہ صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں ہوسکتا‘ وہاں خدا کے قانون کو پکارو۔ خدا کا قانون‘ جو قرآن کے اندر محفوظ ہے‘ آپ کی پکار کا جواب دے گا‘ اس کے مطابق آپ عمل کریں گے تو آپ کی دعائیں قبول ہوجائیں گی۔ اس کے سوا نہ دعا کا کوئی مفہوم ہے‘ نہ قرآن کی رو سے اس کی قبولیت کا کوئی دوسرا طریق ہی ہے۔[/big]