شریعت میں وراثت "ترکہ" کو کہتے ہیں جو کہ لفظ "ترک" سے نکلنا ہے جس کے معنی رک جانا یا متروک کردینا کے ہیں۔
تو گویا وراثت ایسا مال ہوتا ہے جو انسان استعمال کرنے سے رک جاتا ہے یا استعمال نہیں کرسکتا۔ اور ایسا صرف موت کی صورت میں ہوتا ہے اس لیے میت کے چھوڑے گئے مال کو وراثت یا ترکہ کہتے ہیں۔
اسلام میں صرف زندہ لوگ ہی میت کے وارث ہوتے ہیں کیونکہ وارث صرف ترکہ یا مال و دولت کا وارث نہیں ہوتا بلکہ مرنے کے والے ذمہ اگر کچھ فرائض یا قرض وغیرہ ہو تو اس کا بھی وارث ہوتا ہے۔ جو کہ اس کے لیے ادا کرنا لازم ہے۔ اس لیے میت سے پہلے ہی فوت شدہ شخص میت کا قرض کیسے ادا کرسکتا ہے جبکہ وہ خود پہلے ہی فوت ہوچکا ہے ۔ اس لیے صرف زندہ لوگ ہی میت کی وراثت کے حقدار ہوتے ہیں۔
دوسرے لحاظ سے دیکھا جائے تو بیٹا پہلے فوت ہوچکا ہے اور اس کی وراثت تقسیم ہو کر اس کے والدین اور بیوی بچوں کو جاچکی ہے اب جبکہ اس کا والد خود بعد فوت ہوا تو اس کی وراثت پہلے سے فوت شدہ شخص کو کیسے جاسکتی ہے؟
اگر اسے جائز سمجھا جائے تو پھر والد کے بعد بیٹا فوت ہونے کی صورت میں بیٹے کی وراثت سے فوت شدہ والدین کو حصہ ملنا چاہیے جو کہ پھر ان والدین کے دیگر ورثا کو منتقل ہو جیسے ان کے بیٹے یا بیٹیاں اور موجودہ میت کے بھائی بہن وغیرہ۔ اس طرح سے پھر ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑے گا جو کہ کبھی ختم نہ ہوگا کیونکہ ہر فوت شدہ کا کوئی نہ کوئی فوت شدہ وارث ہو گا جس کے آگے مزید ورثا ہوں گے۔
اس لیے اسلام نے صرف زندہ لوگوں کو ہی وارث مقرر کیا ہے تاکہ وہ صرف میت کے مال کے ہی وارث نہ ہوں بلکہ اس کے ذمہ اگر قرض یا اسلام کے کوئی فرائض مثلاً حج وغیرہ ہوں تو انہیں ادا کرسکے۔
واللہ اعلم بالصواب