اردو جواب پر خوش آمدید

+1 ووٹ
2.1ہزار مناظر
نے اردوجواب میں
بیوی کے فرائض میں کیا کیا شامل ہے جسے پورے کر کے ایک عورت اچھی بیوی کا کردار ادا کر سکتی ہے؟

2 جوابات

+3 ووٹس
نے
بیویوں کے شرعی فرائض

ہر مسلمان اس بات کا معترف ہے کہ خاوند کے بیوی اور بیوی کے خاوند پر کچھ حقوق ہیں، قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

”اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے کہ جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔” (سورۃ البقرۃ، آیت 228)

اس آیت کریمہ نے خاوند، بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق و آداب ثابت کیے ہیں، جبکہ خصوصی اعتبار کی بنیاد پر مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ کی خصوصیت حاصل ہے۔

رسول ﷺ نے حجہ الوداع کے موقعہ پر فرمایا:
”سنو! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں اور تمہاری عورتوں کے تم پر حقوق ہیں۔” (سنن ابی داود، سنن النسائی، سنن ابن ماجہ، صححہ الترمذی)

ان میں بعض حقوق تو دونون کے لیے مشترکہ اور برابر ہیں جبکہ بعض حقوق ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ ہیں، چنانچہ مشترکہ حقوق درج زیل ہیں:

) امانت: دونوں ایک دوسرے کے امین ہوتے ہیں، کوئی دوسرے کی خیانت نا کرے۔ معمولی چیز ہو یا زیادہ۔ خاوند، بیوی دو شریک ساتھیوں کی طرح ہوتے ہیں، ان میں امانت، خیرخواہی، سچائی اور اخلاص کا پایا جانا زندگی کے ہر موڑ پر ضروری ہے۔

2) محبت اور رحم کا جذبہ: دونوں میں اتنا ہونا چاہیے کہ دکھ سکھ میں ساری زندگی ایک دوسرے کے کام آئیں اور خالص محبت و شفقت کا اظہار کرتے رہیں تاکہ اس ارشاد حق تعالیٰ کا مصداق بنیں:

“ اور اللہ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے بیویاں پیدا کر دیں، تا کہ تم ان کی طرف (مائل ہو کر) سکون حاصل کرو، اس لیے تمہارے درمیان محبت و شفقت پیدا کر دی”۔ (سورۃ الروم، آیت 21)

اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی بھی تعمیل ہو جائے: “جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا”۔ (صحیح مسلم، صحیح بخاری)

3) باہمی اعتماد: دونوں میں اس انداز کا باہمی اعتماد ہونا ضروری ہے کہ ایک دوسرے پر کلی بھروسہ کریں، خیرخواہی، سچائی اور اخلاص میں ایک دوسرے پر شک نہ کریں۔

زوجیت کے رابطہ نے اخوت ایمانی کے ربط کو مزید بڑھا دیا ہے۔۔۔ اس میں پختگی اور اعتماد پیدا کیا ہے۔ اسی وجہ سے خاوند اور بیوی دونوں خود کو ایک ہی ذات سمجھتے ہیں۔۔۔ پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی ذات پر اعتماد نہ کرے اور اس کے لیے خیر خواہی کے جذبات نا رکھے؟ اپنے آپ سے خیانت کون کرتا ہے اور خود سے دھوکہ کون کر سکتا ہے۔۔۔؟

4) حقوق عامہ: معاملات میں نرمی، چہرے کی شگفتگی بات میں ادب و احترام اور یہی وہ اچھی معاشرت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے:

“اور عورتوں سے معروف طریقے کے ساتھ نباہ کرو”۔ (سورۃ النساء، آیت 19)

اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: “اور عورتوں کے لیے اچھی وصیت قبول کرو۔” (صحیح مسلم)

نیز ارشاد عالی ہے: “اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا، اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے” (سورۃ البقرۃ، آیت 237)
+2 ووٹس
نے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ ربالعزت نے سورۀ نساء

کی آیت ایک سو چونتیس میں بھی بیوی اور شوہر کے مقام و منزلت کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے ایک دوسرے کے تئیں کچھ اہم فرائض کی طرف اشارہ کیا ہے ارشاد ہوتا ہے:


"الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا" (4:34)
یعنی مردوں کو (گھریلو ذمہ داریوں کے سلسلے میں) عورتوں پر حکمرانی حاصل ہے اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت و برتری دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال سے بیوی کا نفقہ (اور اخراجات) اٹھاتے یا دیتے ہیں پس نیک عورتیں مطیع و فرمانبردار رہتی ہیں اور تواضع و انکساری سے کام لیتی ہیں اور اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے حقوق اور اسرار (و رموز) کی حفاظت کرتی ہیں اور جن چیزوں کی اللہ نے حفاظت چاہی ہے (محفوظ رکھتی ہیں) اور (اے مردو !) جن عورتوں کی نافرمانی (اور سرکشی) کا خوف ہو یعنی آثار ظاہر ہو جائیں (پہلے) نصیحت کرو پھر خوابگاہ سے (یا بستر سے) دوری اختیار کر لو اور (اگر یہ دونوں طریقے موثر ثابت نہ ہوں تو ان کی تنبیہ کرو پھر اگر وہ اطاعت پر تیار ہو جائیں تو (ان پر زیادتی کے) بہانے نہ ڈھونڈو، بلاشبہ اللہ بہت ہی عظیم اور بڑے مرتبے کا مالک ہے۔(4:34)
عزیزان محترم ! میاں بیوی کے گھریلو تعلقات کے سلسلے میں یہ آیت بڑی ہی اہم اور کلیدی کردار کی حامل ہے قرآن حکیم کے بعد دوسرے حقائق کی مانند مفاد پرست عناصر نے اس آیت سے بھی غلط فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی ہیں اور بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یہ آیت گھر کے اندر مرد و زن کی حیثیت کو معین کرتی ہے نہ کہ مجموعی طور پر عورت پر مرد کی برتری کو ثابت کرتی ہے اگر چہ گھر کی سطح پر مرد کی انتطامی برتری کو معاشرتی سطح پر ایک پورے معاشرے اور ملک و قوم کی قیادت و رہبری کے لئے وسعت دے کر زیادہ سزاوار قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی تخلیقی قوتیں بہتر ہیں مگر ایسی کوئی بات اس آیت سے ثابت کرنا دشوار ہے آیت میں بظاہر صرف میاں بیوی سے متعلق کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں نہ کہ تمام مردوں اور عورتوں سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ آیت میں گناہ خصوصاً جنسی خیانت سے بیوی کو محفوظ رکھنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی منزل میں شوہر کو بہترین فرد قرار دیا گیا ہے اور یہ اہم فریضہ مرد کے سپرد کیا گیا ہے اور اسی اہم کام کے لئے مقدمہ کے طور پر اللہ نے اعلان کیا ہے کہ ''الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء'' یعنی مرد کو عورت پر قوت و حکمرانی حاصل ہے وہ عورت کی احتیاجات کو برطرف کرنے اور نظم و تدبیر سے کام لینے میں ایک منظم و نگراں کا کردار ادا کر سکتا ہے یعنی مرد کو عورت کی قوت بن جانا چاہئے کیونکہ بیوی ناموس اور الٰہی امانت ہے جس کی حفاظت و پاسبانی کے لئے اس کو ایک قوی محافظ کی ضرورت ہے اور اسی لئے عورت کا نفقہ بھی مرد کے ذمہ رکھا گیا ہے۔ ''بِمَا فَضَّلَ اﷲ'' اور ''بِمَا انفَقُوا'' میں حرف ب سببیت کا ہے یعنی خداوند عالم نے گھریلو امور میں برتری و نگہبانی صرف دو بنیادوں یعنی قوت و توانائی اور نان و نفقہ کی مانند ضروریات زندگی کی فراہمی کے سبب دی ہے لہذا اگر کسی مرد نے ان دو فریضوں سے غفلت و بے توجہی برتی تو بیوی کے سلسلے میں اس کی گھریلو قومیت اور حکمرانی خود بخود ختم ہو جائے گی خیال رہے کہ اسلام نے اس طرح کی کوئی ذمہ داری عورت کو نہیں سونپی ہے اس کو پوری طرح آزاد رکھا ہے۔
بعض جاہل و بے غیرت شوہر، دینداری کا دعویٰ کرنے والے بھی قرآن حکیم کی اس آیت کو سند بنا کر خود کو بیوی کا مالک اور بیوی کو زر خرید کنیز سمجھ لیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بیوی بے چون و چرا ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے، بیوی اپنے ارادہ ؤ اختیار سے کوئی کام نہیں کر سکتی، حتی اپنی ملکیت میں، اپنے مہر اور آبائی میراث یا اپنی کمائی وغیرہ میں تصرف کا کوئی حق نہیں رکھتی ان کی نظر میں بیوی کو ان کا فرمان الہی کا فرمان سمجھ کر ان کی اطاعت کرنی چاہئے حتی اگر شوہر بے پردگی یا نامحرموں کی آنکھیں سینکنے کے لئے جسمانی نمائش کا حکم دے تو وہ بھی بیوی کو حکم الہی سمجھ کر مان لینا چاہئے وہ اگر مخالفت کرے گی تو سخت ترین سزا کی مستحق ہوگی۔ یہ سرے سے ایک جاہلانہ طرز تفکر ہے جو کسی زمیندارانہ ذہنیت کی پیداوار ہے اور اسی طرز فکر نے اسلام دشمنوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اسلام و قرآن کا مذاق اڑائیں اور قرآن کی اس آیت پر انگلی اٹھائیں کہ اس میں عورت کے حقوق کو پامال کرنے کی اسلام نے اجازت دی ہے۔ در اصل ان لوگوں نے نہ تو خود کو آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے کی زحمت دی ہے اور نہ ہی اسلام کے قانون ازدواج سے آشنائی کی ضرورت سمجھی ہے اپنی خواہش سے آیت کا ایک مطلب نکال لیا ہے۔
اس کے برخلاف خواتین کا وہ گروہ ہے جو ازدواجی زندگی کے اصول و قوانین کا پاس و لحاظ نہٰں کرتیں سرکشی اور نافرمانی حتی بے عفتی پر اتر آتی ہیں آیت کے مطابق ان کی اصلاح کے لئے اللہ نے تین مرحلے قرار دئے ہیں پہلے سمجھائیں، نصیحت کریں اس سے کام نہ چلے تو خوابگاہ سے دوری اختیار کر لیں اور اپنی خفگی و ناراضگی کا ا

متعلقہ سوالات

+1 ووٹ
1 جواب 280 مناظر
+1 ووٹ
2 جوابات 999 مناظر
0 ووٹس
3 جوابات 670 مناظر
گمنام نے پوچھا اردوجواب میں 27 مارچ, 2013
0 ووٹس
2 جوابات 1.1ہزار مناظر

السلام علیکم!

ارود جواب پرخوش آمدید۔

کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں! تو آپ بالکل درست جگہ آئے ہیں۔ کیونکہ اردو جواب پر فراہم کیے جاتے ہیں آپ کے سوالات کے جوابات، وہ بھی انتہائی آسان لفظوں میں۔ سوال خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مگر ہمارے ماہرین کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ تو ابھی اپنا سوال پوچھیے اور جواب حاصل کیجئے۔

اگر آپ بھی اردو جواب پر موجود کسی سوال کا جواب جانتے ہیں تو جواب دے کر لوگوں میں علم بانٹیں، کیونکہ علم بانٹے سے ہی بڑھتا ہے۔ تو آج اور ابھی ہماری ٹیم میں شامل ہوں۔

اگر سائٹ کے استعمال میں کہیں بھی دشواری کا سامنا ہو تودرپیش مسائل سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیئے تاکہ ان کو حل کیا جا سکے۔

شکریہ



Pak Urdu Installer

ہمارے نئے اراکین

731 سوالات

790 جوابات

411 تبصرے

360 صارفین

...