اردو جواب پر خوش آمدید

0 ووٹس
57.0ہزار مناظر
نے اردوجواب میں
نے دوبارہ غیر مقفل کیا گیا
آج کل بہت ساری کمپنیاں ملٹی لیول مارکیٹنگ کے تحت اپنا کاروبار چمکا رہی ہے۔ملٹی لیول مارکیٹنگ میں اصل فائدہ کس کو ہوتا ہے اور اسلام کی رو سے کیا یہ جائز ہے کہ ایسی کمپنیوں کے لیے کام کیا جائے؟

5 جوابات

0 ووٹس
نے

 

ایسی تمام کمپنیاں جن میں شریک ہونے والا شخص اپنے دائیں بائیں دو، دو یا اس سے زیادہ افراد کو ممبر بنانے کا پابند ہوتا ہے۔ ان کا کاروبار جوا، سود، دھوکہ اور ان کے علاوہ بہت سے اسباب کی بنا پر صریحاً حرام ہے۔ ان کمپنیوں کا اصل مقصد اپنی مصنوعات فروخت کرناہرگز نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مصنوعات خریدنا ممبر بننے والوں کا مقصد ہوتا ہے یہ مصنوعات صرف حکومتوں کے عالمی قوانین سے بچنے کے لیے (کہ جن میں کسی بھی کمپنی کو بغیر کسی پروڈکٹ کے اس قسم میں ممبر سازی کے پروگراموں سے روکا جاتاہے) رکھا جاتا ہے یا علمائے حق کے برائے راست فتاویٰ سے بچنے کے لیے ان مصنوعات کو حیلہ کے طور پر درمیان میں رکھا جاتا ہے اس پر کئی امور دلالت کرتے ہیں:
1۔ مصنوعات کے نام سے جو چیزیں جس قیمت پر پیش کی جاتی ہیں۔ اس جیسی یا اس سے بہتر معیار کی چیزیں عام مارکیٹ سے اس قیمت سے بہت کم قیمت پر مل سکتی ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ان مصنوعات کی زیادہ ادا کی گئی قیمت میں سے کچھ حصہ کمپنی کی پیش کردہ پروڈکٹ کا ہوتا ہے۔ اور باقی اس کمپنی کا ممبر بننے اور مزید منافع حاصل کرنے بدلے میں ہوتا ہے۔جس یقینی منافع کا پختہ وعدہ ہر ممبر بننے والے کو دیا جاتا ہے۔پروڈکٹ کی قیمت تو ٹھیک لیکن ممبر سے پروڈکٹ کی قیمت کے نام پر زائد قیمت اور اس زائد قیمت پر منافع کا وعدہ خالصتاً سود ہے جس کی حرمت میں کسی مسلمان کو شک نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ اَحَلَّ اﷲُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}۔(البقرہ:۲۷۵)
اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔ اور رسول اللہe نے بھی فرمایا ہے۔
’’ الربا سبعون باباایسرھا مثل ان ینکح الرجل امہ۔‘‘ (صحیح الجامع الصغیر،ح:۳۵۴۱)
کمپنی کی مصنوعات جس قیمت پر دی جاتی ہیںوہی چیزیں اس سے چوتھا حصہ یا اس سے بھی کم قیمت پرعام مارکیٹ میں مل سکتی ہیں۔ 
3۔ ممبر بننے والے اکثر صارفین کو ان مصنوعات کی ضرورت سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ وہ صرف ممبر شپ کے ذریعے منافع حاصل کرنے کی خاطر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ 
4۔ ان کمپنیوں کا مقصد اپنی مصنوعات فروخت کرنا ہوتا تو یہ تجارت کے معروف اور شفاف طریقے استعمال کرتے لیکن ان کا اصل مقصد یہ نہیں ہوتابلکہ اصل مقصد تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مارکیٹنگ کا وہ گورکھ اور پیچیدہ طریقہ ہے جس کے ذریعے چند سو یا چند ہزار روپے لگا کر لاکھوں کروڑوں میں بدل جائیں۔ 
5۔ خود ان کمپنیوں والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ بے روز گاروں کے لیے کام کی فرصتیں پیدا کرتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ ان کا اصل مقصد مصنوعات فروخت کرنا نہیں بلکہ افراد کو اس سلسلہ میں شامل کرنا ہے کیونکہ کام کی فرصتیں پیدا کرنا افراد کا سلسلہ بنائے بغیر ممکن نہیں ۔۔۔
مکمل پڑھنے کے لیے 

 

0 ووٹس
نے
نے دوبارہ ظاہر کیا گیا

 

اس طرح کا کاروبار جائز ہے۔ بشرطیکہ اس قسم کے نیٹ ورک اور چین میں دھوکہ یا فراڈ نہ ہو۔ ہر شخص کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا جائے، کمیشن طے شدہ تناسب کے مطابق ہو۔ کسی بھی دھوکہ یا فراڈ کی صورت میں کمپنی اس شخص کو تاوان دینے کی ذمہ داری ہوگی۔ اگر اس کے برعکس ہو یعنی دھوکہ فراڈ سے افرادی قوت کو بڑھایا جائے، کاروبار کی اصل حقیقت پوشیدہ رکھی جائے، جس کا بعد میں انکشاف ہو اور فتنہ فساد کا خطرہ ہوتو ایسی صورت میں اس طرح کا کاروبار ناجائز ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: حافظ محمد اشتیاق الازہری
تاریخ اشاعت: 2012-01-16
0 ووٹس
نے

 

پاکستان میں تو یہ کام زوروں پر ہے ایک دو کمپنیوں کے سیمینار میں نے بھی اٹنڈ کیے اور ایک کمپنی کا رکن بھی بنا لیکن آگے کام نہیں کیا۔ایک دو دوست اس سے وابستہ ہیں ان سے جب بھی اس بارے میں بات کی انہوں نے کافی حوالوں سے بتایا کہ یہ کام بالکل ٹھیک ہے اور آپ اپنے فائدے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں تک یہ بات پہنچا کر اور ان کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔
لیکن میرے ذہن میں ایک بات ہمیشہ اڑی رہی۔۔ساری کمپنیاں باہر کی ہیں جو بھی ہو ہمارا پیسہ تو ملک سے کھینچ کے لے جا رہی ہیں۔لوگ وہ چیزیں بھی کمیشن کے لالچ میں خرید لیتے ہیں جو ان کے لیے غیر مفید ہوتی ہیں۔
مزید واضح تب ہوا جب اس سوال کا جواب دینے کے لیے میں نے مختلف اسلامی ویب سائٹس دیکھیں۔ایک ویب سائٹ پر موجود عبارت لکھ رہا ہوں جو اس سلسلے میں کافی راہنمائی کرتی ہے۔
 
 [i] ملٹی لیول مارکیٹنگ کی مروجہ شکلیں مختلف مفاسد کو شامل ہیں، اس میں دھوکہ، غرر، بیع کو ایک غیر متعلق چیز کے ساتھ مشروط کرنا، ایک معاملہ کو دو معاملوں سے مرکب بنادینا اور شبہِ قمار وغیرہ خلافِ شرع باتیں پائی جاتی ہیں اور خریداروں کا اصل مقصد سامان خریدنا نہیں ہوتا ہے بلکہ غیر معمولی کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے، اس لئے اس میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔
          چونکہ اس میں شرکت جائز نہیں ہے اس لئے دوسروں کو اس میں شریک کرنا اور نیچے کے ممبروں کی وساطت سے کمیشن حاصل کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
          مسلمانوں کو اس طرح کے تمام کاروبار سے بچنا چاہئے اور کسی بھی ایسی تجارت میں شامل نہیں ہونا چاہئے جو اسلام کے مقرر کئے ہوئے اصولِ تجارت سے متصادم ہو۔[/i]
0 ووٹس
نے
ایسی بہت سی کمپنیا ن ہین لکن ان کی رکنت سے پہلے اس نظا م کو سمجھنا زروری ھے جس کےتحت ان کابز نس چلتا ھے!
0 ووٹس
نے

 

اسلام کی رو سے یہ جائز ہے یا نا جائز اس کا جواب تو کوئی مفتی یا عالم دین ہی دے سکتا ہے۔لیکن آج کل یہ کام اپنے عروج پر ہے۔اصل فائدہ تو کمپینوں کو ہی ہوتا ہے لیکن رکن بن کے بہت سارے لوگ بھی فائڈہ اٹھاتے ہیں۔
 

متعلقہ سوالات

0 ووٹس
1 جواب 1.1ہزار مناظر
0 ووٹس
1 جواب 349 مناظر
0 ووٹس
1 جواب 1.1ہزار مناظر
0 ووٹس
1 جواب 528 مناظر

السلام علیکم!

ارود جواب پرخوش آمدید۔

کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں! تو آپ بالکل درست جگہ آئے ہیں۔ کیونکہ اردو جواب پر فراہم کیے جاتے ہیں آپ کے سوالات کے جوابات، وہ بھی انتہائی آسان لفظوں میں۔ سوال خواہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مگر ہمارے ماہرین کیلئے کچھ بھی مشکل نہیں۔ تو ابھی اپنا سوال پوچھیے اور جواب حاصل کیجئے۔

اگر آپ بھی اردو جواب پر موجود کسی سوال کا جواب جانتے ہیں تو جواب دے کر لوگوں میں علم بانٹیں، کیونکہ علم بانٹے سے ہی بڑھتا ہے۔ تو آج اور ابھی ہماری ٹیم میں شامل ہوں۔

اگر سائٹ کے استعمال میں کہیں بھی دشواری کا سامنا ہو تودرپیش مسائل سے ہمیں ضرور آگاہ کیجیئے تاکہ ان کو حل کیا جا سکے۔

شکریہ



Pak Urdu Installer

ہمارے نئے اراکین

730 سوالات

790 جوابات

411 تبصرے

376 صارفین

...